دفاعی بجٹ کم کیاجائے
تحریر:۔ غیورخان
یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آتی کہ پاکستان کا شمار غیرترقی یافتہ ملک میں کیاجائے یا ترقی پذیر ملک میں۔ اگرپاکستان ترقی پذیر ملک ہے تو پھر ترقی یافتہ ممالک کی خیرات اور قرضوں کی آکسیجن پر کیوں زندہ ہے اور اگرغیرترقی یافتہ ملک ہے تو کیا ایسا ملک ایٹمی طاقت رکھنے کی عیاشی کا متحمل کیوں ہے؟چلو مان لیا کہ پاکستانی فوج دنیا کی بہترین فوج ہوگی اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں کیاجاتا ہوگا لیکن صاحب اتنے عظیم القابات لینے کا پاکستان اور اس کے عوام کو کیا فائدہ؟ پاکستان کے غریب عوام خون پسینہ بہاکر جو کچھ کماتے ہیں اس کا بڑا حصہ تو ان کی جیبوں میں جارہا ہے جو ”کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں“ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہاجاتا ہے ”باکمال لوگ، لاجواب سروس“، اب اس سچائی کے اظہار پر برا منانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کا 70 فیصد بجٹ دفاع کے نام پر فوج کے پاس چلاجاتا ہے، الٹے سیدھے دھندے، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر غیرقانونی ذرائع سے ہونے والی آمدنی کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلے آئی ایس آئی کے نیٹ ورک کی کفالت کی جاتی ہے۔ایک پیشہ ور فوج کا کام سرحدوں کا دفاع کرنا ہے، ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور اس عظیم مقصد کیلئے فوجی جوانوں کو سخت ذہنی وجسمانی محنت ومشقت اور آزمائشی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ وقت پڑنے پر دشمن کو منہ توڑ جواب دیاجاسکے لیکن صاحب ایک غریب کا بچہ بھی تو اس کے والدین سخت محنت ومشقت کرکے پال پوس کے بڑا کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہار ا بن سکے۔
خیربات ہورہی تھی ہمارے فوجی جوانوں کی تربیت کی تو اتنی محنت ومشقت کے بعد فوج بن گئی لیکن جب ہمارے روایتی دشمن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی جانب میلی نگاہ سے دیکھا تو ان ملک دشمنوں سے نمٹنے کیلئے کبھی لشکر جھنگوی کی خدمات مستعار لی گئیں، کبھی لشکرطیبہ کے جوانوں کو کلمہ شہادت پڑھایاگیا، توکبھی سیاچن اور کارگل کے محاذپرپختونوں کو قربانی کابکرابنایاگیا۔ اگر ہماری فوج کو دشمن سے نہیں لڑنا تو پھریہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ پھراتنی بڑی فوج اور اس کے لامتناہی اخراجات کو بوجھ پاکستان کے غریب عوام کیوں برداشت کریں؟ پاکستان کا 70 فیصد بجٹ دفاعی اخراجات پرخرچ کرنے کیا وجہ باقی رہ جاتی ہے؟بھارت سے چار جنگیں لڑیں لیکن ہم کسی ایک جنگ میں فتح کا دعویٰ نہیں کرسکتے پھر بھی ڈھٹائی سے یہی کہاجاتا ہے کہ ہم بہترین فوج ہیں۔دنیا کے ہرملک کی طرح پاکستان کی فوج کے نظم وضبط کی بھی مثال دی جاتی ہے، لہوگرمادینے والے قومی ترانے اور شہدائے پاکستان کے بہادرانہ کارنامے سن کر اپنے کی حفاظت کرنے والے فوجی جوانوں کو معلوم ہے کہ فوجی جرنیلوں کے سینوں میں دھڑکنے والے دلوں میں وطن عزیز کی سلامتی کیلئے جذبات،سچائی پرمبنی ہیں یا محض ریاکاری؟ اگر زندگی کے کسی موڑ پر انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ فوجی افسران کی عیاشیوں کا شاہین کون سے جہانوں کی بلندی کو چھورہا اور ان غریب جوانوں عمر بھر کا سفر رائیگاں ہی ہے تو ذرا تصورکیجئے کیاان کی حالت مرغ بسمل کی مانندنہ ہوگی؟فوج کا کام دشمنوں سے لڑنا ہے،کاروباری امور میں ملوث ہونا نہیں ہے،مگر عسکری بنک، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، فوجی فرٹیلائزر، ملٹری ڈیری فارم، فوجی فوڈز، شاہین ائیرویز، فوجی شوگرملز، فوجی کولا، فوجی سیمنٹ، شادی ہال، واٹرہائیڈرنٹ، فوجی منرل واٹر اوردیگر کاروباری امور کچھ اور ہی کہانیاں پیش کررہے ہیں۔ کیا ایک پیشہ ور فوج کو کاروباری امور میں ملوث کرنا دانشمندانہ فیصلہ ہے؟
تاریخی حقائق یہ ہیں کہ دنیا کی ہرفوج، دشمن ملک کی فوج کیلئے رکھی جاتی ہے تاکہ جب ان کے وطن کی سلامتی پر کوئی بات آئے تو وہ دشمن فوج کے دانت کھٹے کرسکے لیکن پاکستان کی فوج دنیا کی واحد فوج ہے جو دشمن ملک کی تربیت یافتہ اور مسلح فوج سے لڑنے کے بجائے نہتے سویلین سے لڑنے کو ترجیح دیتی ہے۔ آپ پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھجوادویہ سویلین کے خلاف نبردآزما ہوں گے، یمن، شام، عراق، لبنان اور افغانستان بھیج دویہ ان ممالک کے سویلین کو سیدھا کردیں گے، کیا سابقہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے”عظیم الشان“کارنامے دہرانے کی ضرورت ہے؟حتیٰ کہ یہ مردمجاہد اپنے ہی ملک کے نہتے شہریوں پرزور آزمانے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لیکن جب جب فوج یا رینجرز کا سامنا کسی ملک کی تربیت یافتہ مسلح فوج سے ہوا انہوں نے ہتھیار ہی ڈالے ہیں۔ جب نہتوں پر ظلم کرنے والوں کو کوئی نہیں ملتا تو یہ سورما اپنے ہی ہم وطن اور ہم مذہب بنگالی عوام پر پل پڑتے ہیں اور آدھاملک گنواکر بھی فخرسے کہتے ہیں کہ ”یہ تو کھیل کا حصہ ہے“، بڈھ بیر پشاور کے ائیربیس پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے ہماری سیکوریٹی کاپول کھو ل دیا ہے لیکن ہم سب سیکھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں اور اپنے ہی نہتے لوگوں پر زور آزمانے اورپنجہ لڑانے میں مصروف ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اصل حکمرانوں کو ادراک نہیں کہ بھارت، ایران اور افغانستان سے ہمارے تعلق کشیدگی کی کس انتہاء کو چھو رہے ہیں اور پاک،چائنا تعلقات کے استحکام کا دارمدار بھی محض مفادات پر قائم ہے۔ملک کی سرحدوں پر دشمن ملک کی جارحیت جاری تھی اور جاری ہے۔آج بھی یہی صورتحال ہے، سرحدوں پر خطرات منڈلارہے ہیں، دشمن ملک کی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے لیکن ہماری فوج،دشمن ملک سے لڑنے کے بجائے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر زور آزمانے میں مصروف ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نہ صرف ان باتوں پرسنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت محسوس کی جائے گی بلکہ عاقبت وطن کی بھینٹ چڑھایاجاتا رہے اورپاکستان کی غریب آبادی پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس،صحت اورروزگارجیسے بنیادی مسائل کے دائرے سے باہر نہ نکل سکیں تو ہم جیسے دیوانوں کا کیا قصور ہے؟ہم ایٹمی قوت ہیں مان لیا صاحب لیکن کیا یہ ایٹم بم ہماری آنے والی نسلوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کررہا ہے، کیا یہ ایٹمی قوت ہمارے عوام کو پانی، گیس اور بجلی کی سہولیات فراہم کررہی ہے، کیا تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء کو میرٹ کی بنیادپرملازمت کے مواقع میسرآرہے ہیں اگر ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے تو یہ ایٹمی قوت کا تمغہ سجاکر ہم ملک وقوم کی کیاخدمت کررہے ہیں؟
صاحب ہم نے ایٹم بناکر اپنا دفاع مضبوط کرلیا تو یہ بھارت ہماری سرحدوں پر
روزانہ جارحیت کیوں کررہا ہے اور ہمارے پیراملٹری فورس کے جوان بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے بجائے دہلی جاکر بھارتی افواج کی ہربات من وعن کیوں تسلیم کررہے ہیں۔ خدارا، قوم کوفریب نہ دیا جائے اور نہ خودفریبی کا شکارہوا جائے۔ اس حقیقت کوتسلیم کرلیاجائے کہ دنیا کی کوئی فوج، دشمن ملک سے لڑائی میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس ملک کے عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ نہ ہوں، عوام متحد نہ ہوں، عوام کو انصاف میسر نہ ہو لہٰذا پاکستانی عوام کو ایک مضبوط قوم بنانے کیلئے جن عوامل اور اقدامات کی ضرورت ہے ان پر غورکیاجائے اور عمل کیا جائے تاکہ یہ ایک قوم بن کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکے اور اپنی فوج کو ہرمحاذ پر مضبوط کرسکے۔
No comments:
Post a Comment