تعصب کا بھانڈا

کل جماعت اسلامی کے تشدد پسند، طالبان پسند، دہشت کے دلدادہ اور ٹیررسٹوں کے ٹرینی رہنما جناب لیاقت بلوچ صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ سانحہ عاشورہ کا بھانڈا ایک برطانوی جریدے نے پھوڑ دیا ہے۔ بھانڈا جو پھوڑا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جی امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان کے گٹھ جوڑ کے زیر اثر بدنام زمانہ بلیک واٹر اور متحدہ قومی موومنٹ نے سانحہ عاشورہ کی دہشت گردی کی ہے۔


آئیے جھوٹوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں۔ سب سے پہلے تو ہم اس برطانوی جریدے کا جائزہ لیتے ہیں جس کا نام دی لندن پوسٹرابطے کے صفحے پر کلک کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں صرف ای میل ایڈریسز درج ہیں۔ دی لندن پوسٹ نامی ویب سائٹ کا برطانیہ میں کوئی دفتر، کوئی نمائندہ، کوئی ڈسٹریبیوٹر حتی کہ کوئی مشتہر بھی نہیں ہے۔ اب ہم اشتہار کے صفحے پر جاتے ہیں۔ اس صفحے پر آپ کو ضرور مستند معلومات ملتی ہیں۔ کیونکہ ہر ویب سائٹ کو مشتہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

اشتہار بازی کے صفحے پر یوکے کے نیچے صرف ایک ای میل ایڈریس ہے۔ اور ایشیا کے نیچے پاکستان کا ایک موبائل نمبر کوئی لینڈ لائن نمبر بھی نہیں ہے۔ دونوں علاقوں کے لئے ایک ہی ای میل ایڈریس دیا گیا ہے۔ ہے۔ کسی بھی ویب سائٹ کی کریڈیبلیٹی جاننے کے لئے آپ کا براؤسر سب سے اہم ہتھیار ہے۔ ذرا
اب ہم اس ادارے کا جائزہ لیتے ہیں جو دی لندن پوسٹ کے ویب سائٹ کے مطابق ان کی مارکیٹنگ کا ذمہ دار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ادارے کا نہ ہی کوئی ویب سائٹ ہے اور نہ ہی کوئی اور سراغ۔ تمام انٹرنیٹ پر اس کا ذکر صرف دی لندن پوسٹ پر ہی نظر آتا ہے۔

مزید سراغ تلاش کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دی لندن پوسٹ نامی ویب سائٹ پاکستان کے شہر لاہور سے ہوسٹ کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائے۔
اب ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مضمون کے لکھنے والے ڈاکٹر شاہد قریشی صاحب کون ہیں اور ان کی خود کی کریڈیبیلیٹی کیا ہے؟

ہم یہ جاننے سے بالکل قاصر ہیں کہ یہ شخص کون ہے کہاں رہتا ہے، کیا کرتا ہے وغیرہ۔ یہ خود کو ایک سیکیوریٹی اور سیاسی مبصر کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے۔ مگر بے پناہ تحقیق کے باوجود ہم یہ نہیں جان پائے کہ یہ شخص کون ہے۔ محض ایک لنک ایسا ملا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے حامیوں کے بلاگ کا ہے۔ 

اس بلاگ پر ڈاکٹر شاہد قریشی نامی شخص کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بقول اس ویب سائٹ کے ڈاکٹر شاہد قریشی نامی شخص انٹرنیٹ پر بعض انتہائی پراسرار ویب سائٹس (جیسا کہ دی لندن پوسٹ) پر نفرت انگیز تحاریر لکھتا ہے۔ اس کی تحاریر زیادہ تر امریکہ، اسرائیل، بھارت، ایم کیو ایم اور قادیانی دشمنی پر مبنی ہوتی ہیں۔ میں نے اس کی چند تحاریر پڑھی ہیں آپ بھی تلاش کرکے پڑھئے کراچی اور اس کے اردو بولنے والے شہریوں اور ایم کیو ایم کے خلاف اپنے تعصب کو یہ شخص شائستگی کے پردے میں ڈھکنے کا بھی روادار نہیں ہے۔

آج کل کے دور میں اگر ویب پر مضامین لکھتے ہیں تو کسی کے لئے بھی یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ آپ کون ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ میرے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو میرا نام گوگل میں لکھنے سے آپ میرا بلاگ دیکھ سکتے ہیں، آپ فیس بک پر میری پروفائل دیکھ سکتے ہیں، آپ میری تعلیمی استعداد، میرے شوق، میں کیا کیا کام کرچکا ہوں اور کیا کرنا چاہتا ہوں، کہاں رہتا ہوں، میرا ای میل ایڈریس کیا ہے، میرا موبائل فون نمبر اور میرے انسٹنٹ مسینجر کی آڈیز۔ میرے خیالات کیا ہیں اور سیاسی طور پر میں کن نظریات کا حامل ہوں سب کچھ محض چند منٹوں میں معلوم کرسکتے ہیں۔ ایک نام نہاد سیکیوریٹی اور سیاسی مبصر جو ویب پر مضامین لکھتا ہے اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر کسی بھی معلومات کا میسر نہ ہونا ایک بڑی مشکوک بات ہے۔

آپ ذرا اس بابت کچھ ذکر ہوجائے کہ ایم کیو ایم کے بارے میں یہ دعوی مضحکہ خیز کیوں ہے۔ جو مارکیٹیں جلائی گئی ہیں ان کے اکثر دکاندار نہ صرف ایم کیو ایم کے ووٹر ہیں بلکہ ایم کیو ایم کی مالی سپورٹ بھی کرتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام چھوٹے بڑے رہنما تمام سانحے کے دوران جائے وقوع پر چھائے رہے۔ زخمیوں کی منتقلی سے لیکر آگ بجھانے تک۔ صفائی سے لیکر مارکیٹوں کی تعمیر نو تک۔ دکانداروں اور متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ پروپگینڈہ کراچی کی عوام کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی پختون اور پنجابی عوام کے لئے کیا جارہا ہے جو ویسے ہی ایم کیو ایم کو چاند گرہن سے لیکر پولیو تک کے لئے ہر برائی کا منبع سمجھنے کو ہر وقت ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں۔ پروپگینڈے کا مقصد ایم کیو ایم اور کراچی کے خلاف تعصب کو مزید مضبوط کرنا ہے۔

اس سے بھی زیادہ افسوسناک رویہ انتہاپسندوں جیسا کہ لیاقت بلوچ کا وہ رویہ ہے جب وہ اس قسم کی غیر مصدقہ بڑبڑاہٹ کو بطور پروف پیش کرنے لگتے ہیں۔ یقینا لیاقت بلوچ صاحب کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ تحریر کس قدر بیوقوفانہ ہے۔ مگر کراچی اور ایم کیو ایم دشمنی کا رویہ ہمارے ملک میں ایسا ہی ہے جیسے یہودی دشمنی۔ جب بھی کسی مسئلے کی کوئی توجیہہ سامنے نہ آئے تو اسے پاکستان کے نئے صیہونیوں ایم کیو ایم کے سر منڈھ دو۔

پاکستان میں کبھی بھی کسی مسلم لیگی چاہے وہ قاف ہو یا نون، یا کسی پختون چاہے وہ سیکولر ہو یا انتہاپسند کبھی انہیں بھارتی ایجنٹ یا را موساد کا ٹیررسٹ قرار نہیں دیا جاتا۔ راولپنڈی، لاہور، اسلام آباد میں اتنے بم دھماکے ہوئے کسی لیگی پر الزام نہ لگا، کسی نے جماعت کو موردالزام نہ ٹہرایا حتی کہ وزیراعلی پنجاب جنوبی پنجاب کے طالبان تک کو موردالزام یا مشکوک ٹہرانے کو راضی نہیں۔ پشاور میں اسقدر خون بہا مگر کسی نے اے این پی، مولانا فضل الرحمان، یا کسی اور پختون سیاستدان کو موردالزام نہ ٹہرایا۔

پاکستان دشمنی کے یہ طعنے پہلے بنگالیوں پر ٹوٹے، پھر بلوچوں پر، سندھی قوم پرستوں پر اور ایم کیو ایم پر۔ ان تمام الزامات کے باوجود ایم کیو ایم یہاں موجود ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ کہیں جائے۔ کیا ساٹھ سال میں ہم اتنے بھی بالغ النظر نہیں ہوئے کہ اپنے نسلی اور لسانی تعصبات سے جان چھڑا سکیں اور ان لوگوں کے درد کا سوچ سکیں جو پاکستان کو سالوں سے اربوں روپے کا ٹیکس، ہزاروں نوکریاں، اور ایک قابل بھروسہ معیشت فراہم کرتے رہے ہیں؟

دردمند پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ متعصب انتہاپسند، دہشت پسند اور طالبان پسند قسم کے عناصر سے دور رہیں اور ان کی ہر ممکن طریقے سے حوصلہ شکنی کریں۔ سوشل بائیکاٹ اس کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔